560

ڈرپوک ۔ سالا ۔ چ ۔۔۔۔۔۔

بچپنے کی ہر رات ڈر اور خوف میں گزری۔۔ ٹی وی اور موبائل کا زمانہ نہیں تھا کہ رات ٹک ٹاک دیکھتے دل پشوری کرتے گزر جاتی لہذا سر شام بتی بجھا کر سونا اور پھر پچھلے پہر انجانے خوف سے آنکھ کا کھل جانا روز کامعمول تھا۔ خوف بھی ایسا کہ کوئٹہ کی یخ بستہ ہوا کی طرح ہڈیوں میں سرایت کر جاتا۔ جسم جیسے آہنی زنجیروں میں جکڑا محسوس ہوتا ۔ دماغ میں ڈر کے درد کی ٹیسیں اٹھتیں۔ ہاتھ پاوں ہلائے نہ ہلتے ۔ بھوت پریت کا عفریت ہلکی سی جنبش پر حاوی رہتا ۔ اللہ بخشے ماں جی کا کہنا تھا اللہ کے کلام میں بڑی برکت ہے ۔۔ اول آخر درود شریف کے ساتھ تین مرتبہ آیتہ الکرسی پڑھا کرو ۔ ڈر خوف سب بھاگ جائے گا اور میں آیتہ الکرسی کیا جو کلمہ آتا پڑھتا جاتا۔ بس مردہ جسم کے ہونٹ ہلتے محسوس ہوتے ۔ کوئی جھرجھری تک نہیں آتی تھی ۔ سن رکھا تھا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بچے بہادر اور نڈر ہو جاتے ہیں ۔ ڈر اور خوف کا لبادہ خود بخود اتر جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے جیسے کئی بڑے ہو کر بھی ڈرپوک ہی رہتے ہیں۔ رات خوف میں گزارتے ہیں اور دن بھر خود کو کوستے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ غلام نسلوں کا خوف کبھی ختم نہیں ہوتا ۔
سانحہ ساہیوال کے مقتول خلیل کا بھائی جلیل بھی میرے جیسا غلام ابن غلام ہی ثابت ہوا۔ اپنے ویڈیو بیان میں رٹے رٹائے الفاظ اس طرح بول رہا تھا جیسے ماسٹر صاحب کی چھڑی کے خوف سے دونی کا پہاڑہ سنا رہا ہو ۔۔۔ عدالت کا فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ہم مطمئن ہیں۔ تسلی کرلی ۔ میرے بھائی بھابھی اور ان کے دو پھول جیسے بچوں کا قتل ایک حادثہ تھا۔ کسی کی بدنیتی شامل نہ۔ ملک کے تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں۔۔ لوگ اسے لالچی کہہ رہے ہیں۔ بھائی بھابھی اور دو بچوں کے خون کا بیوپاری کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ پنجاب حکومت دو کروڑ روپے کا وعدہ کر چکی ہے۔ ایک میں ہوں جو اسے ملک کے عام آدمی کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ ملک کی مالدار اشرافیہ کے دو فیصد افراد کو نکال کر دیکھیں تو 22 کروڑ کے نفوس پر مشتمل بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ میں کون ہے جو سینہ ٹھونک کر کہہ سکے وہ کسی چابک والے سے نہیں ڈرتا۔ مقتول خلیل کا بھائی جلیل لالچی نہیں بس ڈر گیا ہے ۔
والد صاحب مرحوم سرکاری نوکری کے حق میں تھے یا پھر انہیں وردی والے پسند تھے۔ کہتے تھے پکی نوکری بابو بنا دیتی ہے۔ بھوکا نہیں مرنے دیتی۔ وردی چودھراہٹ دیتی ہے ۔ مونچھ کسی طور نیچے نہیں ہوتی۔ سرکار کیطرف رغبت نہیں تھی۔ وردی کا ٹیسٹ دیا تو گھٹنے آپس میں ٹکرا گئے ۔ فیل ہو کر عام الناس کی بھیڑ میں شامل ہو گیا ۔ دودھ کی فیکٹری میں کام کیا تو گوالا کہلایا ۔ پوسٹ آفس میں ڈاک چھانٹنے کا کام ملا تو ڈاکیہ شناخت بنی ۔ اپنے تئیں پڑھا لکھا تھا ۔ بچوں کو پڑھانے کی اکیڈمی کھول لی لیکن دنیا داری نہ سیکھ سکا ۔ مرتا کیا نہ کرتا لفظوں کا سوداگر بن کر پاپی پیٹ کی آگ بجھانے کا سبب کیا ۔ احساس محرومی نے اندر کے خوف کو مزید پختہ کر دیا لہذا رات ڈرنے اور دن بھر ملامت کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔
یہ ڈر اور خوف ہی تو تھا کہ صرف 9 ماہ کی پیشیوں میں مقتول خلیل کے سگے بھائی اور بچ رہنے والے معصوم بچوں نے ملزموں کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور عدالت نے سی ٹی ڈی کے 6 اہلکاروں کو شک کا فائدہ دے کر بری کر دیا ۔ کیس کچھ اتنا گنجلک بھی نہیں تھا ۔ رواں سال 19 جنوری کو کوٹ لکھپت لاہور کا رہائشی خلیل اپنی بیوی تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ عزیز کی شادی پر کرائے کی گاڑی میں بوریوالا جا رہا تھا ۔ گاڑی ساہیوال کے قریب پہنچی تو پیچھا کرنیوالی ایک کار نے انہیں روکا ۔ دو کمسن بچیوں ننھے بچے کو گاڑی سے کھینچ باہر نکالا اور اندھا دھند فائرنگ کر دی ۔ خلیل اس کی بیوی بیٹی اور ڈرائیور کو چھلنی کر دیا ۔ گوٹہ کناری کے کپڑوں پر خون کا سرخ رنگ نمایاں ہو گیا ۔ ظالموں نے گاڑی کے باہر کھڑے ننھے بچوں کی آنکھوں پر پٹی بھی نہیں باندھی ۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں پر قتل کا مقدمہ درج ہوا ۔ جے آئی ٹی بنی ۔ ویڈیوز اسلحہ قبضے میں لیا گیا ۔ کچھ چشم دید گواہوں کے بیانات بھی ہوئے ۔ اس سب کے باوجود مقتول کے بھائی اور زندہ بچ رہنے والے تین معصوموں نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا ۔ میں نے پچاس سے زائد برسوں تک اپنے اندر کے ڈر کی پرورش کی ہے لیکن خوف کی اس سے بڑی مثال مجھے کہیں نہیں ملی ۔
پچھلے دو روز سے میں اپنے اندر صرف اتنی طاقت جمع کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اور کچھ نہیں تو چند لفظوں کا پرسہ ہی دے لوں ۔ مرنیوالے مر گئے جو بچ رہے انہیں حوصلہ دے دوں ۔ بالآخر قلم کمان کیا اور حق بات لکھنے بیٹھا تو آنکھیں بھر آئیں ۔ میرا ضمیر چونکہ میرا بھیدی ہے ۔ اٹھ کھڑا ہوا اور بے بھاو کی سنائیں ۔۔ کہتا ہے ۔۔۔ تو جس قوم سے ہے اس میں کون کافر ایسا ہوا جس نے کبھی سچ کا ساتھ دیا ہو ۔ نسل در نسل کاسہ لیسی کرتے کبھی شرم محسوس نہیں کی ۔ ظالم کے آگے جھکنا تیرا ایمان اور طاقتور کے آگے سر تسلیم خم کرنا تیرا وطیرہ ہے ۔ آج ایسا کیا ہو گیا کہ کلمہ حق کہنے چلا ہے ۔ چل اٹھ ٹسوے بہانا چھوڑ ۔ ڈرپوک ۔ سالا ۔ چ ۔۔۔۔۔۔

محمد شجاع الدین
26 اکتوبر 2019

اپنی رائے دا اظہار کرو