مثلث کو ہم تمام عمر مخنث ہی سمجھتے رہے ۔ معاملہ ہی کچھ اسطرح کا ہے کہ زاویہ اے زاویہ بی کے برابر ہے ۔ زاویہ بی زاویہ سی کے برابر ہے تو پھر زاویہ اے کو بھی لازما زاویہ سی کے برابر ہونا چاہیئے ۔ کیوں بھئی ؟ ہمارے مقتدر حلقوں کی طرح ہر زاوئیے کی اپنی مرضی ہونی چاہئیے جس زاویہ میں جی کرے ، رہے ۔ کسی آئینی و اخلاقی کسوٹی کی پابندی کیسی ؟ ہم اسکول کے زمانے میں بھی جیومیٹری کی اسی ادھیڑ بن میں رہے لیکن اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کے مصداق لکیروں کی زبان ہمیں کبھی سمجھ نہ آ سکی ۔
بھلا ہو تبدیلی کے طرم خان عمران خان صاحب کا ، پنجاب کی پگ نواز شریف صاحب کا اور دینی حمیت کے سرخیل مولانا فضل الرحمان صاحب کا کہ انہوں نے ہماری الجھی گتھی سلجھا دی ۔ ان کے درمیان جاری رسہ کشی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ تگڑم کا ہر کھلاڑی اپنی جگہ کمال کا پہلوان ہے ۔ ایک نے اڑنگی دی ، دوسرے نے دھوبی پٹکا مارا تو تیسرے نے بڑھ کر ٹانگ کھینچ لی ۔ عمران خان صاحب این آر او نہیں دوں گا کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں ۔ نواز شریف صاحب این آر او نہیں لوں گا کی بڑھک مارتے ہیں اور مولانا فضل الرحمان نہیں چھوڑوں گا ۔۔ کبھی نہیں چھوڑوں گا کی گردان لیے بیٹھے ہیں ۔ تینوں اپنے تئیں ڈٹے کھڑے مست ہاتھی دکھائی دیتے ہیں مگر کھیل کسی اور کا کھیل رہے ہیں ۔ کسے معلوم کھیل ہی کھیل میں سب کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے یعنی
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ ایک کی دم
وزیراعظم عمران خان صاحب کا بچپن اور پھر جوانی پر جوانی بلکہ ابھی تک بھری جوانی کا احوال دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کام کے ساتھ ساتھ قسمت کے بھی دھنی ہیں ۔ بھٹو مرحوم کے بعد ملکی تاریخ میں ایسا سیاستدان کم ہی ہو گا جس نے نئی امنگ نئی ترنگ کے ساتھ نوجوان نسل کی ایک نئی کھیپ تیار کی ۔ عوام کا سیل رواں بھی ہمراہ کر لیا اور منزلیں پھلانگتے وزارت عظمی کے منصب تک پہنچ گئے ۔ دوسری طرف سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونیوالے نوازشریف صاحب پلے بوائے بنے اپنی لال اسپورٹس کار دوڑاتے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے تو ایک نہ دو پورے تین بار وزیراعظم منتخب ہوئے ۔ مسند شاہی سنبھالی تو خاندان بھر کو خلعت سے نوازا ۔ بھٹو کے جیالوں کی طرح نواز شریف صاحب کے متوالوں کی بھی ایک فوج ظفر موج موجود ہے ۔ رہے مولانا فضل الرحمان تو انہیں خانقاہی ورثے میں ملی ۔ ظاہر اور باطن کے تمام علوم بھی عمر کے ساتھ پروان چڑھتے رہے ۔ دین اور دنیا یکجا کرنے کا فن بھی خوب آتا ہے ۔ اسی لئے تو ہر منتخب اور غیر منتخب حکومت میں جزو لا ینفک ٹھہرے ۔ اتفاق مانیئے کہ ان تینوں شاہسواروں کی پرورش اور پشتیبانی ایک خاص ڈھنگ سے ہوئی ۔ اب کس کا تیر کس کے کمان سے نکلتا ہے ؟ ان تینوں کو سب معلوم ہے ۔ بے خبر ہیں تو ہم عوام کہ جمہوری نظام میں گننا اور شاہی نظام میں تولنا ہمارا منصب نہیں۔
ارض پاک میں مارشلائی ادوار کی بوالہوسی سے صرف نظر کریں تو معلوم پڑے گا کہ کسی زمانے میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کہلانے والی بھٹو اور بی بی کی پیپلزپارٹی نے ہمیشہ روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر ووٹ ہتھیائے ۔ ملک دو لخت ہو گیا مگر دکانداری چمکتی رہی ۔ جناب محترم آصف علی زرداری صاحب نے جماعت کو اس مقام پر پہنچا دیا کہ نہ پیپلزپارٹی رہی نہ اس کا نام ۔ اسی لئے پیپلزپارٹی آج اس مثلث کا حصہ نہ بن سکی ۔ نواز ، شہباز نے ضرورت بہ ضرورت ملک کی خالق جماعت مسلم لیگ کے ان گنت ٹکڑوں کے تال میل سے نظریہ پاکستان کی ریز گاری سے ووٹ خریدے ۔ کبھی روپیہ ڈوب گیا تو کبھی ڈالر بھاگ گیا ۔ بھائی لوگ اپنی جیبیں بھرتے رہے ملکی معیشت دیوالیہ ہو گئی ۔ اللہ وطن عزیز کو سلامت تا قیامت رکھے ۔ ہر دور کی لیگی قیادت نے نظریہ پاکستان کی بولی ضرور لگائی اور خوب دولت بھی کمائی ۔ جمعیت علمائے اسلام کے سالار مولانا فضل الرحمان نے ہمیشہ حرمت رسول کا نعرہ لگا کر اللہ کے نام پر معرض وجود میں آنے والے ملک اور اسلام کے شیدائیوں کی سرفروشی سے اپنی جھولی بھری ۔ ہر حکومت سے حصہ بقدر جثہ بھی لیا بلکہ سود الگ سے وصول کیا ۔ یعنی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
افسوس بھٹو اور بی بی کے دور اقتدار کیطرح نواز اور شہباز کی حکومتوں میں جیالوں اور متوالوں کو صرف الیکشن کے دنوں میں پیٹ کا دوزخ بھرنے کیلئے صرف قیمے والے نان ملتے رہے اور کچھ نہیں ملا ۔ مولانا فضل الرحمان کی زنبیل سے بھی جو نکلا ان کے آنگن کی زینت بنا ۔ دینی و مذہبی کارکن فقط اللہ ہو کے نعرے پر ٹرخائے جاتے رہے ۔ آج اگر وزیراعظم عمران خان صاحب کے چاہنے والے امید نا امید کی کیفیت کا شکار ہیں یا پھر نئے پرانے پاکستان کی بھول بھلیوں میں اپنا رستہ تلاش کر رہے ہیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں بلند و بانگ دعووں کی کوئی حقیقی تصویر بنتی نظر نہیں آ رہی ۔
ملکی سیاست کی بچھی شطرنج کے کھلاڑیوں کو خبر ہی نہیں کہ اب بھی سنبھل جائیں گھوڑا ڈھائی چال چل گیا اور پیادہ وزیراعظم کو شہ مات دینے والا ہے ۔ نوازشریف صاحب تو ایک دو دن میں اڑن چھو ہونے والے ہیں ۔ قرائن بتاتے ہیں مولانا فضل الرحمان صاحب بھی جلد اپنی قناطیں لپیٹ لیں گے ۔ البتہ وزیراعظم عمران خان صاحب کو تھوڑے بہت رعایتی نمبر ضرور ملیں گے لیکن اصل معاملہ وہیں کھڑا ہے کہ اس مثلث کو بنانیوالے نے کہیں پوری قوم کو مخنث تو نہیں کر دیا ۔۔۔۔
محمد شجاع الدین
8 نومبر 2019
444