لکھت، فاروق عادل
دھرنے کے بحرِ بے کراں میں توجہ کے قابل صرف ایک مولانا فضل الرحمن ہی نہیں، اس ملک کے 72 برس بھی ہیں جن کی کوکھ سے دھرنے اور بحران پے درپے نکلتے ہیں اور تاریخ کا رزق بن کر کسی نئے بحران کی راہ ہموار کر جاتے ہیں۔
ایک نونہال نے گلہ کیا کہ ہماری قسمت ہی خراب ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے،سوائے انتشار کے کچھ نہیں دیکھا۔ بس، اسی شکوے کی کمان سے یاد نے الٹی زقند لگا کر ان سہانے زمانوں میں پہنچا دیا جب کپکپا دینے والی سردیوں میں لحاف لپیٹ کر اس طالب علم نے اپنے والد مرحوم سے تاریخ کا ایک سبق سیکھا۔
ہمارے بچپن میں معاشرتی علوم نام کا ایک دلچسپ مضمون تھا جس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ بچوں میں تاریخ کا شعور اور کسی قدر ناسٹیلجیا کی کیفیات پیدا کرتا اور معصوم ذہنوں میں ایک معصوم سی خواہش انگڑائی لیتی کہ کاش اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری دنیا کتنی حسین ہوتی۔
والد مرحوم کا کوئی بریف کیس ہماری آپ کی طرح ڈگریوں سے بھرا ہوا نہیں تھا لیکن اُن کی روح دانشِ مشرق سے منور تھی۔ ایسی ہی کسی خواہش پر وہ مسکرائے اور کہا کہ کاش کی اوٹ میں پناہ لینے والو ں کا مستقبل اکثر عبرت ناک ہوتا ہے۔ ان دنوں شاید مغلیہ سلطنت کے زوال اور انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا عہد زیر مطالعہ تھا جس سے یاس کی کیفیات پیدا ہوئیں تو اُس بزرگ نے راز کی ایک بات میرے کان میں ڈال دی۔
کہا کہ دُکھ کی گہرائی میں اترنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مغل اس انجام سے دوچار کیوں ہوئے۔ پھر سوال کیا کہ تمھارے خیال میں اس زوال کا سب سے بڑا سبب کیا ہے؟ اقبالؒ کا ایک شعر میں نے خود ان ہی زبانی سن سن کر یاد کر رکھا تھا، وہی دہرا دیا ؎
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سنا اوّل طاؤس و رباب آخر
لیکن یہ تیر بہدف نسخہ کام نہ آ سکا۔ انھوں نے فرمایا کہ اقبالؒ کی یہ تشخیص اپنی جگہ اور برحق لیکن اس زوال کا ایک سبب اور بھی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ہلاکت خیز ہے۔ پھر بتایا کہ مغلوں کے زوال کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ ابتدا سے انتہا تک جانشینی اور انتقال اقتدار کا کوئی دانش مندانہ اسلوب وضع کرنے میں ناکام رہے۔ یہی سبب تھا کہ مغل دربار ابتدا تا انتہا سازشوں کے گڑھ بنے رہے، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ سلطنت جو اس کرہ ارض پر سونے کی چڑیا کے نام سے پکاری جاتی تھی، عسکری اور تہذیبی اعتبار سے جسے رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے معدوم ہوگئی۔
اب اتنی مدت کے گزرنے کے بعد جب میں اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ انگریز کے دو سو برس کے اقتدار اور اس کے جبر سے آزاد ہو جانے اور ایک جاں گسل جدوجہد کے نتیجے میں آزادی حاصل کر لینے کے باوجود بھی ہم ابھی تک زوال کے اس سبب کو نہیں جان پائے جس نے عظیم الشان مغلیہ سلطنت کو انجام تک پہنچایا اور اب وہی آزار رگ و پے میں سرایت کرنے کے بعد ہمارے جسم و جاں کی توانائی نچوڑتا چلا جا رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن سڑکوں پر کیوں نکلے، اس سوال کے جوابات بہت ہیں۔ غیر متعلق ہو کر قصہ ماضی بن جانے کا خوف یا پھر وہ نظریاتی کشمکش جس نے وطن عزیز کو 72 برسوں سے اس تقسیم میں مبتلا کررکھا ہے جس کے زہر نے صرف سیاست نہیں، زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ناپاک پاؤں پھیلا رکھے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر پیپلزپارٹی ان کے ساتھ کیوں ہے؟ پیپلزپارٹی سے زیادہ حیرت اے این پی کے ساتھ پر ہونی چاہیے بلکہ اس سے بھی بڑے لبرل عبدالصمد اچکزئی کے لخت جگر کے ساتھ پر بھی، گویا معاملہ کوئی اور ہے۔ یہاں اس بحث میں اپنے اصل نام کے بجائے وسی بابا جیسی دلچسپ عرفیت سے شہرت پانے والے ہمارے ایک جواں سال صحافی داخل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اکثر باتیں دلچسپ کنایوں یا قبائلی محاورے میں کرتے ہیں، کچھ سمجھ میں آ جاتی ہیں جو سمجھ میں نہیں آتیں، اُن پر بھی یاروں سے داد پاتے ہیں کہ لوگ باگ خود کو ذہین اور سمجھ دار ثابت کرنے کی دوڑ میں جانے کیا کچھ کر گزرتے ہیں۔
مولانا کے دھرنے یا تحریک کو انھوں نے ایک قبائلی رسم میرات کے تناظر میں سمجھانے کی کوشش کی ہے جس کے مطابق قبائلی جب کسی دشمن کی چیرہ دستی سے تنگ آ جاتے ہیں تو صرف اپنے قبیلے ہی نہیں بلکہ دور پار کے احباب تک کو جمع کر کے غنیم پر چڑھ دوڑتے ہیں اور کامیابی کے بعد مال غنیمت ساتھیوں میں بانٹ کر دل ٹھنڈا کرتے ہیں۔ وجوہات اور بھی کئی ہوسکتی ہیں، سمجھ دار معاشرے جنھیں سمجھنے کے لیے روایتی اور غیر روایتی ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں۔
مولانا اگرچہ اپنے دھرنے کا موازنہ عمران کے دھرنے سے کرنا پسند نہیں کرتے ہیں لیکن دل پر جبر کر کے یہ موازنہ کر بھی لیا جائے تو کوئی بھی سلیم الفکر اسی نتیجے پر پہنچے گا جس پر مغلیہ سلطنت کے زوال پر غور کرنے والے بزرگ پہنچے ہوں گے کہ کھیل کے قواعد(Rules of the Game) پر عدم اتفاق۔ اس عدم اتفاق میں اتفاق کا پہلو یہ ہے کہ عمران ہوں، مولانا ہوں، نوازشریف ہوں یا وہ سب جو مولانا کے ساتھ ہیں یا نہیں، اُن سب کی زبان پر اپنے اپنے محاورے کے مطابق یہی شکایت ہے اور اسی شکایت نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔
کل اگر کسی مداخلت کے باعث کوئی منتخب حکومت نہیں چل پاتی تھی تو آج دھرنا ایجاد کر کے خود اسی طبقے نے اپنی زندگی اجیرن کر لی ہے۔ یہ زندگی اجیرن ہی رہے گی اگر اس معاشرے میں انتقال اقتدار کے اصولوں پر اتفاق رائے نہیں ہو پائے گا۔
مولانا نے اپنی بند مٹھی ابھی تک نہیں کھولی اور لگتا نہیں کہ اس لڑائی کے آخر تک وہ ایسا کریں گے لیکن اگر سمجھنے والے سمجھ پائیں تو بہت سی مشکلات ازخود دور ہو جائیں گی۔ اس اعتبار سے اگر مولانا کی مہم جوئی کو عذاب سمجھنے کے بجائے قفل کشا سمجھ کر کوئی رستہ تلاش کرنے کی کوشش کر لی جائے تو سب کا بھلا ہو گا، ورنہ ہم آپ اسی سوال میں الجھے رہیں گے کہ مولانا ڈی چوک جائیں گے یا نہیں جائیں گے۔
441