23

“دی بلیک ہول” اسلام آباد: جبر دے دور وچ روشنی دی کرن

ثقلین امام۔
ایسے دور میں جب فکری جمود، نظریاتی سختی اور ریاستی جبر حریت فکر کو کچل رہے ہوں، “دی بلیک ہول” اسلام آباد امید کی ایک کرن نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے قائم کردہ اس آزاد تعلیمی اور فکری مرکز کی حیثیت صرف ایک لیکچر ہال کی نہیں بلکہ یہ بقول فیض، ایک ایسا “جرات تحقیق اور ہمتِ کفر” کا پلیٹ فارم ہے جو غلط معلومات کو چیلنج کرتا ہے، روایتی بیانیوں پر سوال اٹھاتا ہے، اور ایسے معاشرے میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے جہاں اس طرح کی کوششوں کو اکثر دبایا جاتا ہے۔
اگرچہ میں پاکستان سے باہر رہائش پذیر ہوں، لیکن یوٹیوب کی بدولت “دی بلیک ہول” کے کئی مباحثوں اور تقاریر سننے کا موقع ملا۔ اس ادارے نے وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چند انتہائی حساس مگر اہم موضوعات پر گہری بحث و مباحثے کی میزبانی کی ہے—وہ موضوعات جنہیں عموماً مرکزی دھارے کے فورمز پر جگہ نہیں ملتی۔
بابڑہ قتل عام پر ہونے والی گفتگو نے 1948 میں خدائی خدمتگاروں پر ریاستی ظلم کو اجاگر کیا، جو پاکستان کی سرکاری تاریخ میں عام طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح پاراچنار کے محاصرے پر ہونے والی بحث نے پاکستان کی شیعہ برادری پر فرقہ وارانہ تشدد اور اس پر ریاست کی چشم پوشی کا جائزہ لیا۔ بلوچ مسئلے پر بھی ایک اہم مکالمہ منعقد ہوا، جس میں بلوچستان میں جاری بغاوت، انسانی حقوق کی پامالیوں، اور جبری گمشدگیوں جیسے نازک موضوعات پر روشنی ڈالی گئی، جنہیں اکثر دبایا جاتا ہے۔
بلیک ہول نے نہ صرف تاریخ کے چھپے ہوئے اوراق کھولے ہیں مثلاً مشرقی پاکستان میں ناکامی پر بحث کی گئی، بلکہ تنقیدی سوچ کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جیسا کہ آج کی سائنس پر مباحثوں کا انعقاد ہے۔
بلیک ہول کی اصل کامیابی صرف ان موضوعات پر بات کرنا نہیں، بلکہ ان پر بات کرنے کی جرات رکھنا بھی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں اختلاف رائے کو سنسرشپ، جبر، اور سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہاں ایک آزاد فورم کا وجود جو تاریخی مظالم، ریاستی جبر، اور نظریاتی جمود پر سوال اٹھانے کی جرات رکھتا ہو، کسی انقلابی کارنامے سے کم نہیں۔

تاہم میری رائے میں اس پلیٹ فارم کو ایک بڑے چیلنج کا بھی سامنا بھی ہے—اپنے سامعین کی فکری تیاری۔ بہت سے شرکاء پختہ اور روایتی خیالات کے ساتھ ان مباحثوں میں شریک ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے گہرے اور باریک بینی سے کیے گئے مکالمے اکثر سطحی گفتگو میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ سامعین کے سوالات کا بہت ہی سٹیریوٹائپ یا سطحی نوعیت کا ہونا ایک کوفت کا باعث ہوتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سامعین کو اس قسم کے پلیٹ فارمز پر شریک ہونے سے پہلے خود بھی بھی مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ بحث معیاری سطح کی ہو۔
تمام تر مزاحمت کے باوجود، بلیک ہول پاکستان کے فکری منظرنامے کو بہتر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ نوجوانوں کے لیے ایسے مواقع مہیا کر رہا ہے جہاں وہ آزادانہ طور پر خیالات پر بحث کر سکتے ہیں، طاقتور بیانیوں پر سوال اٹھا سکتے ہیں، اور دنیا کو ایک وسیع تر اور زیادہ باشعور نقطہ نظر سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ جان کر کہ ایسا ایک پلیٹ فارم موجود ہے، جہاں نوجوان روایتی بیانیوں سے ہٹ کر سچائی کی تلاش میں علمی گفتگو کر سکتے ہیں، مجھے بے حد مسرت اور اطمینان محسوس ہوتا ہے۔
ایسے وقت میں جب خوف سچ بولنے والوں کو خاموش کر دیتا ہے اور حقیقت کو ریاستی پروپیگنڈے کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے، بلیک ہول ایک مزاحمتی طاقت کے طور پر کھڑا ہے۔ یہ محض ایک لیکچر ہال نہیں، بلکہ جدوجہد، شعور، اور جہالت کے خلاف جنگ میں ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ آیا ایسے پلیٹ فارم زندہ رہ سکتے ہیں، ترقی کر سکتے ہیں، اور نئی نسل کے ذہنوں کو روشن کر سکتے ہیں۔
اگر “دی بلیک ہول” تمام رکاوٹوں کے باوجود اپنا مشن جاری رکھ سکا، تو یہ صرف علم کے چراغ جلانے کا ذریعہ نہیں بنے گا، بلکہ یہ تاریخ کا رخ موڑنے کا بھی سبب بنے گا۔ اگر اس بے لوث عظیم انیشی ایٹو کے لیے ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کی بے لاگ تعریف نہ کی جائے تو”دی بلیک ہول” پر اس سے بڑا ظلم نہیں ہوگا۔ میری تمام دعائیں اور نیک تمنائیں ڈاکٹر صاحب اور ان کی پوری ٹیم کے لیے جنھوں نے جرات و تحقیق کی شمع روشن کی ہے۔

اپنی رائے دا اظہار کرو