وسعت اللہ خان
اگر مطالعہِ پاکستان کے عدسے سے پاکستان کا مطالعہ کیا جائے تو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کے عوام نہیں بلکہ حکمران بدقسمت ہیں جنھیں ایسی قوم میسر آئی جو ترقی کرنے کی قطعاً خواہش مند نہیں۔
ہر حکمران پاکستان کو بلندی تک پہنچانے کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے مگر عوام ہیں کہ ہر رسی کو سانپ سمجھ کے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
ایوب خان نے زرعی اصلاحات کے زریعے بڑے زمینداروں سے 40 لاکھ ایکڑ زمین چھڑوائی تاکہ بے زمینوں میں بانٹ کے غربت ختم کی جائے، تربیلا اور منگلا ڈیم بنائے۔
بھٹو صاحب نے ان اصلاحات کو ناکافی سمجھتے ہوئے مزید اصلاحات کیں۔ ان کے نتیجے میں سبز انقلاب تو آ گیا مگر غربت کم نہ ہوئی۔
حاسد لوگ کہتے ہیں کہ جو بھی ترقی ہوئی اس کے ثمرات اوپر اوپر ہی عسکریوں، نوکرشاہوں اور کاسہ لیس سیاسی و کاروباری و کارپوریٹ مافیا میں بٹ بٹا گئے مگر حکمران کہتے ہیں کہ ہم نے پیداوار دوگنی کی تو عوام نے بچے دوگنے کر کے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔
ہر سادہ و خاکی بادشاہ قومی دنوں کے موقع پر جو روایتی پیغام جاری کرتا ہے اس میں زور اس پر ہوتا ہے کہ سب کو پاکستانی بن کے سوچنا چاہیے مگر ناخواندہ جنتا کہتی ہے کہ جس روز قومی وسائل کو 25 ہزار خاندانوں کے بجائے پچیس کروڑ لوگوں سے تقسیم دے دی جائے گی اس دن ہر شخص خود بخود پاکستانی بن کر سوچنے لگے گا۔
حکمران کہتے ہیں کہ ہم جو بھی ترقیاتی منصوبہ بناتے ہیں لوگ اس کی اچھائیوں پر دھیان دینے کے بجائے کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بھلے وہ کالاباغ ڈیم ہو یا موٹر وے یا گوادر پورٹ یا سی پیک دیکھیں۔
مگر لوگ کہتے ہیں کہ کمرے میں بند درزیوں کی سی ہوئی ترقیاتی پوشاک مار مار کے پہنانے کے بجائے کم از کم یہی پوچھ لو کہ ہمیں کون سا کپڑا، کون سا رنگ پسند ہے اور ہمارے تن و توش کا سائز کیا ہے۔ ہم پاگل یا ننھے کاکے تو نہیں کہ جنھیں ترقی کا مطلب ہی نہیں معلوم۔
ہم اپنی ہی غربت کی عالمی نمائش لگا کے تمہیں اربوں ڈالر کے قرضے لینے سے نہیں روک رہے مگر ہم مقروضوں کو یہ تو بتا دیا کرو کہ کس مد میں کن شرائط پر ہمارا کیا کیا رہن رکھوا کے قرض لیا ہے؟
حکمران کہتا ہے مجھ پر اعتماد کرو میں آخر کیوں تمہارا برا سوچوں گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ تمہیں جب ہمارے ووٹ پر ہی اعتماد نہیں تو ہم کیوں اندھا اعتماد کریں۔ ووٹ تو دور کی بات تمہیں تو خود پر، اپنی عدلیہ اور پارلیمنٹ پر بھی بھروسہ نہیں تو ہمارے یقین یا بے یقینی کی اتنی فکر کیوں؟
کبھی کبھی تو ایسے ترقیاتی منصوبے بھی حلق سے اتروانے کی کوشش ہوتی ہے جن کے بارے میں خود منصوبہ سازوں کو بھی پورا علم نہیں ہوتا کہ اس سے انھیں یا لوگوں کو کتنا فائدہ پہنچے گا یا اس کے عوض بدزنی کے درخت میں اور کتنے زہریلے پھل لگیں گے ۔
ہمیں تو سرکار ہی بتاتی آئی ہے کہ پاکستان کا شمار ان 10 ممالک میں ہے جو شدید قحطِ آب سے دوچار ہیں۔ ہمیں ماحولیاتی ماہرین سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے گلیشیئر اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ اگلی نصف صدی میں دریا اور صحرا کا فرق مٹ جائے گا۔
یہ بھی ہمیں پانی کا تقسیم کار ادارہ ارسا ہی بتاتا ہے کہ موسمیاتی اتار چڑھاؤ کے سبب پنجاب کو ضرورت سے 14 فیصد اور سندھ کو 20 فیصد کم پانی مل رہا ہے۔
ہمیں یہ بھی کوئی سرکاری بابو ہی بتاتا ہے کہ ڈاؤن سٹریم پانی کی مسلسل قلت کے سبب انڈس ڈیلٹا کو سمندر نگل رہا ہے مگر ان میں سے کوئی نہیں بتاتا کہ کس برس سیلاب آئے گا اور کس برس اتنی کم بارشیں ہوں گی کہ زمین کے چہرے پر جھریاں پڑنے لگیں۔
دوسری جانب انڈیا ہے جو 1960 میں تین مشرقی دریا لینے کے باوجود مسلسل بضد ہے کہ سندھ طاس معاہدے پر ازسرِ نو غور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں جب یہ خبر آتی ہے کہ مشترکہ مفادات کی آئینی کونسل کا اجلاس بھی 11 ماہ سے نہیں ہوا مگر وفاق اور پنجاب نے چولستان میں 70 لاکھ ایکڑ کو باغ و بہار بنانے کا منصوبہ شروع کر دیا تو نچلے صوبوں میں ایک نئی بے چینی پھیلنے لگتی ہے۔
سندھ کو تو یہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہاں پر حکمران پارٹی کا سربراہ بطور صدرِ مملکت ہرے بھرے پاکستان پروجیکٹ کے ساتھ ہے مگر ان کی پارٹی پارلیمنٹ کے اندر باہر اس منصوبے پر مسلسل تحفظات بھی جتا رہی ہے۔
سرسبز پاکستان سازوں کا کہنا ہے کہ چولستان کی سیرابی کسی صوبے کے طے شدہ آبی کوٹے کو کم کر کے نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے اضافی پانی یا تو انڈیا کو دیے گئے دریائے ستلج کے مون سون سیلاب سے حاصل ہو گا یا پھر پنجاب اپنے کوٹے میں سے پانی دان کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ جب یہی طے نہیں کہ سیلاب ہر سال نہیں آتا وہ اپنی مرضی کا مالک ہے تو اتنے خطیر منصوبے کی بنیاد ایک مفروضے پر کیسے رکھی جا سکتی ہے؟