لکھاری، نعمان یاور
’ہماری بچیاں محض گڑیوں سے کھیلنے اور پریوں کی کہانیاں سننے کے لیے نہیں، انہیں سکھانا ہے کہ کیسے اپنا حق لینا ہے‘۔ میں نے جب یہ جملہ سنا تو احساس ہوا کہ واقعی بولنے والی عورت نہ صرف انصاف دلاتی ہے بلکہ اس کے لیے تحریک بھی دلاتی ہے۔ یہ 1985ء کی بات ہے جب میں اور میرے ساتھی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم کے لیے سرگرم تھے اور میڈم عاصمہ سے چندہ مانگنے آئے تھے۔یہ میری عاصمہ جہانگیر سے پہلی ملاقات تھی۔ان کے ہاں آنے سے قبل ہم ایک متمول اور ’انقلابی‘ بزرگ خاتون ’لیڈر‘ کے ہاں گئے تھھے جنہوں نے لمبا چوڑا انقلابی لیکچر دینے کے بعد ہمارے ہاتھ میں 50 روپے تھما دیئے تھے، عاصمہ جہانگیر نے کوئی خاص بات نہ کی، مدعا سنا اور 500 روپے کا چیک دے دیا۔میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا یہ کیا ہے؟ ان کا جواب تھا، عاصمہ ایک متحرک اور عملی طورپر کام کرنے والی ورکر ہیں، انہیں ہمارے مقاصداور جدوجہد کا بخوبی علم ہے۔مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ 20 سال کی دبلی پتلی لڑکی اپنے والد ملک غلام جیلانی کی گرفتاری کےخلاف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر سے ٹکرا گئی اور ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کو چیلنج کردیا۔بعد میں یہ مقدمہ پاکستانی عدالتی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم کیس بن گیا۔حریت فکر کی جدوجہد میں اس نڈر خاتون نے جنرل ضیا جیسے آمر سے بھی ٹکرلے لی۔زمانہ طالبعلمی میں ہم جب بھی ان سے ملنے گئے، عاصمہ بی بی نے ہمیشہ کسی شفیق استاد اور بڑے کی طرح سیاسی رہنمائی کی۔معمولی عورتوں کے لیے وہ غیرمعمولی عورت بن کرمیدان میں اترتی تھیں۔وہ ایک بار ہمارا تھیٹر دیکھنے آئیں تو بڑے دبنگ انداز میں کہہ ڈالا کہ ’میں جنرل ضیا پر ڈائریکٹ انگلی اٹھانے سے نہیں گھبراتی اور تم لوگ اپنے ڈرامے میں بین السطور میں بات کر رہے ہو۔دو ٹوک الفاظ میں بات کرو۔سب کو سمجھ لگے گی، اور ضیا ٹولے کو بھی سمجھ آجائے گی کہ نوجوان کیا سوچتے ہیں‘۔ہمارے لیے یہ بڑی بات تھی۔ آنے والے وقتوں میں ہم نے واقعی اس دلیری اور بے دھڑک انداز کو کبھی مصلحت پسندی کا شکار ہوتے نہیں دیکھا۔میں صحافت سے وابستہ ہوا تو 1992ء میں بے نظیر کے نوازشریف کے خلاف لانگ مارچ کی مانیٹرنگ ٹیم میں ساتھ جانے کااتفاق ہوا۔اس دوران دیکھا کہ عاصمہ بی بی سیاسی معاملات پر بھی گہری نگاہ رکھتی تھیں۔ان کی خواہش تھی کہ وہ بے نظیر سے ملاقات کریں اور اس سلسلے میں حکمت عملی وضع کر کے اپنی رائے دیں۔یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔جب بے نظیر سکیورٹی فورسز کی ناکہ بندی کو توڑتی ہوئی ایک گاڑی میں راولپنڈی کی جانب بڑھیں تو ایک موقعے پر بے نظیر بھٹو کی گاڑی خاردار تاروں میں پھنس گئی اور ہم نے گاڑی میں محترمہ کو لفٹ کی پیشکش کی۔وہ پنڈی جاکر پولیس کے گھیرے میں آگئیں اور انہیں غلام مصطفی جتوئی اور دیگر رہنماؤں سمیت حراست میں لے لیا گیا۔یہ موبائل فون کا دور نہیں تھا، اس لیے آپس میں رابطے محدود ہوا کرتے تھے۔طویل جدوجہد کے بعد جب ہم اپنے اخبارات کو خبر اور تصاویر بھجوانے میں کامیاب ہوئے تو ہمارے علم میں آیا کہ اسلام آباد میں عاصمہ بی بی اور انسانی حقوق کمیشن کی ٹیم کے ارکان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔انہیں مارگلہ تھانے میں رکھا گیا تھا۔سینیر سیاستدان ملک محمد قاسم بھی وہیں زیرحراست تھے۔ہم لوگ وہاں پہنچے تو بڑی مشکل سے تھانے کے گیٹ پر قیدیوں سے ہماری ملاقات کرائی گئی۔میں نے دیکھا تھانے میں عاصمہ بی بی بڑی دلیری سے ٹہل رہی تھیں، ہمیں دیکھ کر بولیں:’چودھری شجاعت نوں دس دینا میں ڈرن آلی نئیں، اینہاں نوں چھیتی چھڈنا پے گا‘(چودھری شجاعت کو بتادو، میں ڈرنے والی نہیں، انہیں جلد ہی مجھے رہا کرنا پڑے گا)۔چودھری شجاعت اس وقت نواز شریف کے وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے۔ہوا بھی یوں ہی۔ بی بی سی کے نمائندے نے وزیر داخلہ سے رابطہ کرکے عاصمہ جہانگیر کی گرفتاری کی تصدیق چاہی اور بتایا کہ وہ سیاستدان نہیں بلکہ ایک غیر جانبدار تنظیم کی نمائندہ ہیں تو چودھری شجاعت نے درخواست کی کہ ابھی خبر نہ دیں۔اور پھر کچھ تاخیر کے بعد حکومت کو اس نڈر خاتون کو چھوڑنا پڑا۔وہ کوئی سیاسی شخصیت تو تھی نہیں کہ کارکنوں اور پارٹی شناخت کو لے کر نعرے بلند کرتیں۔انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کو اپنے عمل کی بنیاد بنا کر چلنا سیکھا تھا۔وکیل تھیں مگر ایک جج کی طرح غیرجانبدار رہیں۔شدت پسند سوچ رکھنے والے اکثر انہیں ان کی زندگی میں بھی تنقید کا نشانہ بناتے رہے لیکن کھلے ذہن کے ساتھ ان کا دل بھی بڑا تھا۔انہیں غصہ تو آتا تھا لیکن جب بات بنیادی انسانی حقوق کی ہوتی تو وہ اپنے نظریاتی مخالف کا کیس لڑنے کو بھی کھڑی ہو جاتیں۔عورتوں کے حقوق ہوں، بھٹہ مزدوروں یا بچوں سے جبری مشقت کا معاملہ، عاصمہ پہلی آواز ہوتیں۔عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کا آئیکون بن گئیں لیکن انہیں کبھی ستائش، پذیرائی اور سب سے بڑھ کر عہدے کی خواہش نہیں تھی۔عدلیہ بحالی تحریک میں بھی انہوں نے دبنگ موقف اپنایا اور جنرل پرویزمشرف کی آمریت کو چیلنج کیا۔آخر کار ججز بحال ہوگئے اور مشرف چلے گئے مگر عاصمہ اپنے اصولوں پر ڈٹی رہیں اور چیف جسٹس افتخار چودھری کے کئی فیصلوں سے ببانگ دہل اختلاف کیا۔عاصمہ بی بی نے تحریک کے دوران ہی صاف کہہ دیا تھا کہ انہیں کسی جج کی خوشنودی نہیں چاہیے، وہ اور ان کے ساتھی ایک آمر کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر آئے ہیں اور ڈکٹیٹر کو جھکنے پر مجبورکردیں گے، اور پھر ایسا ہی ہوا۔افتخار چودھری نے آمرانہ طرز عمل اختیار کیا تو وہ ان کے خلاف بھی میدان عمل میں اتر آئیں، ان کے ہم خیال گروپ نے وکلا انتخابات میں اپنے موقف کے ساتھ کامیابیاں سمیٹیں۔ایک بات سب مانتے کہ عاصمہ جہانگیر حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف دبنگ موقف رکھتی تھیں اور اپنی رائے کے اظہار میں وہ اس ملک کی شاید سب سے بڑی ’مرد‘ تھیں۔عاصمہ کے انتقال پر ان کی رہائش گاہ پر حنا جیلانی صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو میں صرف اتنا ہی کہہ سکا، ’ہم نے بہت کچھ کھو دیا، کسی بھی سماج میں ایسی ہستیاں ہی دوسری دنیا میں شناخت بنتی ہیں۔پاکستان کو عبدالستار ایدھی جیسے عظیم خادم سے محروم ہونا پڑا، وہیں جمہوریت، عدل اور قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے والی خاتون رخصت ہوگئیں لیکن جانے سے پہلے وہ راستہ دکھا گئیں۔
374