رپورٹ۔بی بی سی
اسلام آباد میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس میں افغان شہریوں کی پاکستان آمد کی چار دہائیاں مکمل ہونے پر بحث کی گئی اور اس بارے میں بھی بات کی گئی کہ افغان پناہ گزینوں کو کس طرح بااختیار بنایا جائے۔
لیکن پاکستان کے دارالحکومت میں رہنے والے افغان آخر اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے اسلام آباد میں رہنے والے چند ایسے نوجوانوں سے بات کی جن کے والدین اور خاندان کے دیگر افراد 40 سال پہلے بے سروسامانی کی حالت میں افغانستان سے پاکستان آئے تھے۔
دیبہ عزیزی بتاتی ہیں کہ’میری پیدائش خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں ہوئی ہے۔ بڑے ہوتے ہوئے میں خود کو افغان نہیں سمجھتی تھی۔ جب میری فیملی اسلام آباد آئی تو مجھے پانچ سال تک سکول میں داخلہ نہیں ملا۔‘
’سرکاری سکول میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق کچھ پابندیاں تھیں کہ اگر آپ افغان ہیں تو کچھ کام آپ نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے سکول دیر سے شروع کیا۔
عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ’میرا تعلق پشاور سے ہے اور میں اسلام آباد میں اپنی پڑھائی مکمل کر رہا ہوں۔‘
’جب بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے تو افغان پناہ گزین کا نام اس واقعے سے جوڑا جاتا ہے۔ ہم پر اس کا مختلف طریقے سے اثر ہوتا ہے۔
’ایسے کسی بھی واقعے کے بعد جب ہم کالج یا سکول جاتے ہیں تو ہمارے کلاس فیلوز ہمیں تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایسے دیکھتے ہیں جیسے یہ دہشتگردی کا واقعہ ہم نے کیا ہو۔‘
739