اب آجایئے، لیاقت قائم خانی پر، بہت لذیذ، مسالے دار بلکہ چٹخارے دار کہانی، سندھ کے ضلع سانگھڑ کے علاقے کھپرو کا یہ سپوت کراچی آیا، وزیراعظم جونیجو کی سفارش پر مالی بھرتی ہوا، کراچی میونسپل کارپوریشن کا بوسیدہ کوارٹر، قائم خانی سفر شروع، ہاتھ، زبان کی محنت، بانٹ کر کھانا، دن دگنی، رات چگنی ترقی، چند سالوں میں ہی درجہ چہارم سے درجہ اول افسری، میئر کراچی نعمت اللہ نے ڈائریکٹر پارکس لگادیا، کماؤ پوت تھا، عشرت العباد کی نظر پڑی، گورنر سندھ صاحب نے آغوشِ محبت میں لے لیا.
زرداری صاحب سے سلام دعا ہوئی، ایسی نیاز مندی، ایسا تعلق پوچھیں نہ، دو مرتبہ گرد ش حالات میں آیا، پہلی بار 2003میں کرپشن پر نیب نے تحقیقات شروع کیں مگر مشر ف دور میں ایک بااختیار کی رشتہ داری کام آئی، 3کروڑ کرپشن فائل بند، دوسر ی مرتبہ 2013اینٹی کرپشن سندھ نے تحقیقات شروع کیں، آج کے میئر کراچی وسیم اختر تب بلدیات ودیہی ترقی کے وزیر ،مزے کی بات آج لیاقت قائم خانی جس میئر وسیم اختر کے مشیر، اسی وسیم اختر نے تب بحیثیت وزیر بلدیات لیاقت قائم خانی کرپشن تحقیقات کرنے کیلئے خط لکھا، تحقیقات شروع ہوئیں لیکن جلد ہی یہ کرپشن تحقیقات بھی رک بلکہ ختم ہی ہو گئیں۔
اب اس بار تو کمال ہی ہوگیا، انکوائری، تفتیش کے کسی مرحلے، حتیٰ کہ محل نما بنگلے کا دروازہ کھلنے تک کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ قائم خانی اتنا کچھ چھپا کر بیٹھا ہوا، نیب فائلوں، نیب ذہنوں میں بات کروڑوں کی تھی مگر جب قائم خانی محل کا دروازہ کھلا، وہ محل جس میں یہ اپنی دوسری بیگم صاحبہ کے ساتھ رہ رہا تو اندر دنیا ہی اور، گیراج میں مہنگی ترین 8گاڑیاں، امپورٹڈ گھاس والے لان، ولایتی پودے، نایاب پھول، ریموٹ کنٹرولڈ دروازے، قیمتی لکڑی کا فرنیچر، ہر کمرے ،ہردیوار ،ہر شے سے امارت، نفاست جھلکتی ہوئی۔
نیب ٹیم کی تلاشی شروع ہوئی تو کہیں سے مبینہ طور پر 20پلاٹوں کی فائلیں، کہیں سے کراچی، لاہور گھروں کے کاغذات، تجوریاں کھلیں تواندر، ڈالر، ریال، ہیرے، سونے کے لاکٹ، سونے کے سکے، قیمتی گھڑیاں، پرائز بانڈ، آخری لاکر چھ فٹ لمبا، سات فٹ چوڑا نیب ٹیم کو سات گھنٹے لگے کاٹنے میں، اندر سے دواہم فائلیں نکلیں۔
نیب ذرائع یہ بتاچکے کہ قائم خانی کی مبینہ طور پر سندھڑی کھپرو میں 5سو ایکڑ زرعی زمین، کھپرو میں 30دکانوں پر مشتمل مارکیٹ، دھاگے کا کارخانہ، برائلر مرغی کے شیڈز، بھینسوں کے باڑے، قائم خانی نے نہ صرف مبینہ طور پر والد کے نام پر پرائیویٹ کالج بنا رکھا بلکہ والد کا عالی شان مقبرہ دو ایکڑ پر، جس کا ڈیزائن کراچی کے باغ ابن قاسم سے ملتا جلتا، سنا جارہا کہ مبینہ طور پر 20برسوں میں 70پارک صرف کاغذوں پر بنے یعنی فنڈز لئے گئے، مگر پارک کاغذوں پر، سنا یہ بھی جارہا کہ ڈی جی پارکس کراچی کی پوسٹ تھی ہی نہیں۔
یہ پوسٹ قائم خانی کیلئے بنائی گئی، کراچی گاڑیوں والے رو رہے، اب مہنگی گاڑیاں کون خریدے گا، ایکسائز ایجنٹ بین کر رہا، اب میں منہ مانگی قیمت پر 505کار نمبر کیسے دوں گا، سوچئے کھاد، مٹی، پانی، پودوں کا اتنا منافع بخش استعمال، ایسے ارسطو، لقمان بلکہ ان کے بھی استاد، سندھ کے علاوہ کہاں۔
اب ذرا سی دیر کیلئے سرے محل، نیکلس کہانیوں، 25والیومز والی منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس رپورٹ، ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، خورشید شاہ، سراج درانی، اومنی گروپ کیا، سندھ بینکوں، سندھ بجٹ کا پیسہ کہاں گیا، سب کو ایک طرف رکھیں۔
یہ بڑے معاملے، بڑے لوگ، بڑے الزامات، آپ صرف کراچی کے ایک ڈی جی پارکس کا حال دیکھ لیں، سندھ اس حال تک کیسے پہنچا، بس قائم خانی مثال کافی، ایک طرف ایک سرکاری افسر کے گھر میں اتنا کچھ، دوسری طرف حالات یہ، مرتے وقت 10سالہ میر حسن کو سلطان کوٹ، شکارپور، لاڑکانہ اسپتالوں سے کتا ویکسین نہ ملے۔
مرنے کے بعد ڈھائی سالہ موہن کو میرپور خاص اسپتال میں ایمبولینس نہ ملے، لاش موٹر سائیکل پر لے جاتے ہوئے موہن کا باپ کیول بھیل اور چچا دونوں سڑک حادثے میں مر جائیں اور سجاول، چوہڑ جمالی کی 4سالہ شہزادی بنت مصطفیٰ کی میت لواحقین تھرمو پور شیٹ پررکھ کر نہر پارکرائیں، یہی سندھ جہاں ہر قائم خانی کے گھر جنت کدے، جہاں ہر میر حسن، ہرموہن، ہر شہزادی کیلئے قدم قدم پر پل صراط، سچ کہا تھا خورشید شاہ نے، جس نے ترقی دیکھنی ہے سندھ آکر دیکھ لے۔
757